Clifton Times - Your Weekly Real Estate Guide

حکومتی پیکیج اگرزبردست نہیں توبہت اچھا ضرور ہے


The government package is very good if not great
  • ARTICLES    |    11 May 2020

- عمیرات میں تیزی آئے گی، خریدو فروخت کا سلسلہ بھی تیز ہوگا ،ریئل اسٹیٹ بزنس پر مثبت اثرات مرتب ہونگے

- حکومت نے تعمیرات کے شعبے کوصنعت کا درجہ دیا ہے جو بہت اچھی بات ہے ،اس کے بہت دوررس اثرات ہونگے

- ذراءع آمدن کے بارے میں نہ پوچھنے کا اطلاق زمین یا پلاٹ کی خریداری پر بھی ہوگا ؟ نوٹیفکیشن سے وضاحت ہوجائیگی

- اس پیکیج کی اگرہم ایک طرف خوبیاں لکھیں اوردوسری طرف خامیاں تویقینا خوبیوں کاپلڑا بھاری بلکہ بہت بھاری ہوگا

- تعریف کایہ مطلب نہیں حکومت کو اب مزید کچھ نہیں کرنا چاہئے یا ہ میں حکومت سے مزید مطالبات نہیں کرنے چاہئیں

- ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بہتری کیلئے اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، حکومت طویل مدتی ہاءوسنگ پالیسی بنائے

کراچی( تجزیہ :زاہد اقبال)تعمیرات کے شعبے کیلئے وزیراعظم عمران خا ن کی جانب سے جس ایمنسٹی اسکیم یا ریلیف پیکیج کا اعلان کیا گیاہے وہ اگر زبردست نہیں توبہت اچھا ضرور ہے، اس کے ملکی معیشت پر بہت ہی اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور 70 سے زائد منسلک صنعتوں کا پہیہ بھی چلے گا ۔ جہاں تک ریئل اسٹیٹ سیکٹر کا تعلق ہے تو ہ میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ریئل اسٹیٹ بزنس صرف پلاٹوں کی خریدوفروخت کانام نہیں بلکہ تعمیرات اور تعمیر شدہ پراپرٹیز میں لین دین بھی اسی بزنس کا حصہ ہے، تعمیرات کے شعبے میں تیزی آئے گی تو اس سے تعمیر شدہ پراپرٹیز کی خریدو فروخت کا سلسلہ بھی تیز ہوگا اور یوں ریئل اسٹیٹ بزنس پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ریئلٹرز کو حکومت کے اس پیکیج کے مثبت پہلوءوں پر نظر رکھنی چاہئے اور تنقید برائے تنقید سے گریز کرنا چاہئے ۔ اس پیکیج میں حکومت نے تعمیرات کے شعبے کوانڈسٹری کا درجہ دیا ہے جو بہت اچھی بات ہے اور اس کے بہت دوررس اثرات ہوں گے ۔

اس سال کے آخر تک یعنی31دسمبر تک تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذراءع آمدن کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا ۔ اس کی مزید وضاحت منگل کوجب اس حکومتی پیکیج کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری ہوگا ہوجائے گی تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا اطلاق زمین یا پلاٹ کی خریداری پر بھی ہوگا،مثلاً اگر کوئی شخص تعمیرات کیلئے زمین یاپلاٹ خریدتا ہے تواس سے بھی ذراءع آمدن کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا،یعنی ایف بی آر کے 111قانون کا اطلاق اس پر نہیں ہوگا ۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ اگر کوئی پہلے سے موجود اپنی زمین پر تعمیرات کرتا ہے تواس سے بھی ذراءع آمدن کا نہیں پوچھا جائے گاجبکہ ماہرین کایہ بھی کہنا ہے کہ نئی تعمیر شدہ پراپرٹیز میں سرمایہ کاری کرنے والے بھی اس ایمنسٹی سے مستفید ہوں گے ۔ بہرحال جلدہی اس سلسلے میں تمام چیزوں کی وضاحت ہوجائے گی ۔ اس پیکیج کے تناظر میں ہ میں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ دنیا بھر میں اس وقت غیر تعمیرشدہ پراپرٹیز یعنی پلاٹوں کی خریدوفروخت کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور اس کے بجائے تعمیر شدہ پراپرٹیز کی خریدو فروخت کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے، کیوں کہ پلاٹوں کے لین دین سے کچھ لوگوں کو انفرادی فائدہ توہوتا ہے لیکن ملک کو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا اوراس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ زمین یاپلاٹوں کی قیمت مصنوعی طریقے سے بہت زیادہ ہوجاتی ہے اور ایک عام شخص کیلئے پلاٹ یا گھر کی خریداری ایک خواب بن کررہ جاتا ہے ۔ دوسری طرف جب تعمیرات ہوتی ہیں تو اس سے ملک کے 70سے زائد مختلف صنعتوں کاپہیہ بھی چلتا ہے اور ملکی معیشت ترقی کرتی ہے ۔ حکومتی پیکیج کواگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس پر تنقید کاکوئی جواز نہیں بنتا ۔ ہمارے ہاں عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز میں 9خوبیاں اور صرف ایک خامی ہوتی ہے تو لوگ خوبیوں کوتویکسرنظرانداز کردیتے ہیں اور ایک خامی کو لیکر تنقیدکے تیر برسانا شروع کردیتے ہیں جو کسی بھی طور مناسب نہیں ۔ مذکورہ حکومتی پیکیج کی اگرہم ایک طرف خوبیاں لکھیں اوردوسری طرف خامیاں تویقینا خوبیوں کاپلڑا بھاری بلکہ بہت بھاری ہوگا ،اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس حکومتی پیکیج کونہ سراہنا نا انصافی ہوگی، یہ بہت اچھاپیکیج ہے اور اس کے نتاءج بھی نہ صرف تعمیرات کے شعبے (اب صنعت) کیلئے بہت اچھے ہوں گے بلکہ ریئل اسٹیٹ کے دیگرشعبوں پربھی اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے ۔ البتہ اس کامطلب یہ بھی نہیں حکومت کو اب مزید کچھ نہیں کرنا چاہئے یا ہ میں حکومت سے مزید مطالبات نہیں کرنے چاہئیں ، ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بہتری کیلئے اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت یا گنجائش ہے ۔ مثلاً حکومت کو چاہئے کہ جو شخص پہلی مرتبہ گھرخریدے یا گھر بنانے کیلئے پلاٹ خریدے تواس پر نہ صرف کوئی ٹیکس نہ لگائے بلکہ اس سے سورس آف انکم بھی نہ پوچھے،کیوں کہ ہمارے ہاں ایسابھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کی آمدنی بظاہر توکوئی خاص نہیں ہوتی لیکن وہ اوراس کے گھر والے 30 اور 40 سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے بچوں کاپیٹ کاٹ کر، کمیٹیاں ڈال ڈال کر اورایک ایک پائی جمع کرکے پلاٹ کیلئے رقم جمع کرتے ہیں ۔ اس لئے ان سے ذراءع آمدن نہیں پوچھنا چاہئے ۔ مختلف ممالک میں پبلک ہاءوسنگ کی ایسی پالیساں ہیں جن کے تحت عام لوگ بھی با آسانی اپناگھر خریدسکتے ہیں ،حکومت کوان پالیسیوں کومد نظر رکھ کر پاکستان میں بھی کوئی ایسی پبلک ہاءوسنگ پالیسی بنانی چاہئے جس کے ذریعے عام لوگوں کیلئے بھی اپنی چھت کامالک بنناممکن ہو ۔ مثلاً برطانیہ میں حکومتی اسکیم’’;72;elp to buy‘‘ہے ۔ اس کے تحت حکومت عام شہریوں کو پہلی مرتبہ گھر خریدنے کی صورت میں گھر کی مجموعی قیمت کا 20 تا 40فیصدتک لون دیتی ہے، یہ لون پانچ سال تک کیلئے ہوتی ہے اوراس پر کوئی سود نہیں لیاجاتا ۔ جبکہ اس اسکیم کے تحت کوئی شخص صرف پانچ فیصد ادائیگی کرکے کسی گھر کوبک کرسکتا ہے ۔ گھرکی باقی قیمت کا انتظام بینکوں کی جانب سے ہوتا ہے اور اس پر خریدار سے صرف ڈیڑھ تادو فیصد سودلیاجا تا ہے ۔ یہ اسکیم وہاں کے عام لوگوں کیلئے ہے امیروں کیلئے نہیں اوراس میں گھرکی قیمت کی حد بھی مقرر ہے یعنی 6لاکھ پونڈ تک ۔ ہمارے ہاں بھی حکومت کو ایک کروڑ روپے تک کے گھروں کیلئے ایسی کوئی پالیسی بنانی چاہئے اوریہ پالیسی طویل مدتی ہونی چاہئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو’’ریرا‘‘ کے قیام کاعمل بھی تیز کرنا چاہئے ۔ اس کے قیام سے صارفین کے حقوق کا تحفظ ہوگا، اسپیڈی کورٹس کے ذریعے قانونی تنازعات فوری طورپر حل ہوسکیں گی جبکہ اس کے ذریعے ریئل اسٹیٹ ایجنٹس اوران کے کمیشن کو بھی تحفظ حاصل ہوگا ۔ ایک اوراہم بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں ریئل اسٹیٹ اورتعمیرات کے شعبے کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کسی بھی ملک کی دولت کا60تا70فیصد ریئل اسٹیٹ پر مشتمل ہوتا ہے،غرض ریئل اسٹیٹ کاشعبہ کسی ملک کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے اور حکومت اس کو نظراندازنہیں کرسکتی ۔ جہاں تک ٹیکسوں میں کمی کاتعلق ہے توکوئی بھی حکومت اس وقت تک ٹیکس کم نہیں کرتی جب تک اس کے کوئی ٹھوس معاشی فوائد نہ ہوں ، اس لئے ہم جب حکومت سے ٹیکسوں میں کمی کا مطالبہ کریں توساتھ میں یہ بھی بتائیں کہ اس سے معیشت پرکیا مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔