Clifton Times - Your Weekly Real Estate Guide

راشن کی تقسیم کابہترین راستہ، مساجد


The best way to distribute rations is through mosques
  • COLUMN    |    27 April 2020

لاک ڈاءون کے دوران ضرورت مندافرادخصوصاً مزدوروں اوردیہاڑی دار دارطبقے تک راشن پہنچانا بہت ضروری ہے، اگراس کا مءوثر انتظام نہ ہوا تو نہ صرف کئی انسانی المیے جنم لے سکتے ہیں بلکہ لوگ ریاستی احکامات کی پامالی اور لاک ڈاءون کی خلاف ورزی پر مجبورہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک طرف اگر ریاستی رٹ ختم اوراتفراتفری پھیل سکتی ہے تودوسری طرف کوروناوائرس کے پھیلاءو کو روکنے کے تمام انتظامات بے نتیجہ ثابت ہوسکتے ہیں اور یہ وبا بے قابوہوکر اوروسیع پیمانے پر پھیل کر ملک وقوم کو ناقابل تصورنقصان سے دوچارکرسکتی ہے ۔

وزیراعظم عمران خان نے ضرورت مندوں تک راشن پہنچانے کیلئے ٹائیگرز فورس قائم کرنے کا اعلان توکیا ہے لیکن ان کا یہ منصوبہ موثر اورنتیجہ خیز نہیں لگتا ۔ پہلی بات تویہ ہے کہ راتوں رات ٹائیگرز فورس کاقیام کیسے عمل میں آئے گا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگرتحریک انصاف کے کارکنوں نے اپنی خدمات اس سلسلے میں پیش بھی کردیں تو ایک موثر انفرا اسٹرکچر کی عدم موجودگی میں وہ کیسے کام کریں گے ، راشن کہاں رکھیں گے، ڈسٹری بیوشن پوائنس کا انتظام کیسے کریں گے،ان جیسے دیگر کئی مسائل کا بھی ان کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ یہ سارے انتظاما ت کرنے کیلئے ان کو کئے ہفتے درکار ہوں گے جبکہ دوسری طرف لا ک ڈاءون کو ایک ہفتے سے زیادہ دن ہوچکے ہیں اوراس وقت ضرورت مندوں کو بغیر کسی تاخیر کے راشن پہنچانے کی ضرورت ہے،ورنہ صورتحال خراب ہوسکتی ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لوگوں کی تحریک انصاف سے وابستہ امیدیں پوری نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے موجودہ حکومت پر عوامی اعتماد کو نقصان پہنچاہے کچھ لوگ تو حکومتی اعلانات اورفیصلوں کو سنجیدہ ہی نہیں لیتے اور ان کامذاق اڑاتے نظر آتے ہیں ۔ چونکہ ہمارے ملک میں ہر معاملے میں سیاست بھی خوب کی جاتی ہے اس لئے ٹائیگرز فورس کودیگرسیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل نہیں ہوگی اوران کی کوشش ہو گی کہ اس کوناکام بنایا جائے ۔

توپھر معاملے کا حل کیاہے؟ایک حل تویہ ہے کہ حکومت سیلانی، چھیپا،عالمگیرٹرسٹ،الخدمت اوران جیسی دیگر با اعتماد خیراتی اداروں کے ذریعے راشن کومستحقین اور ضرورت مندوں تک پہنچانے کا انتظام کرے، چونکہ ان اداروں کے پاس اپنا انفرا اسٹرکچر موجود ہے اس لئے ان کے ذریعے فوری طورپر راشن پہنچانے کاکام کیاجاسکتاہے ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ بہتر اورموثرحل اورطریقہ یہ ہے کہ حکومت مساجدکے ذریعے یہ کام کرے ۔ ملک کے ہر محلے، ہر گلی، ہر قصبے اور ہرگاءوں میں چاہے اورکوئی ادارہ مثلاًاسکول،اسپتال وغیرہ ہو یا نہ ہولیکن مسجدضرورموجودہوتی ہے ۔ پھریہ کہ ہرمسجدکی ایک انتظامی کمیٹی بھی ہوتی ہے، امام،مءوذن اورخادم وغیرہ توہوتے ہی ہیں ۔ اس لئے موجودہ صورتحال میں صرف مسجدکے ذریعے ہی راشن کو شفاف اور بہتر طریقے سے ضرورت مندوں تک پہنچایاجاسکتا ہے ۔

بدقسمتی سے ہم نے معاشرے میں مسجدکے کردارکو صرف نماز اوردیگرعبادات تک محدودکردیاہے حالانکہ اسلام میں تومسجدکوایک مرکز ی حیثیت حاصل ہے اور اس کادین کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور میں بھی بہت اہم کردار ہے ۔ حضوراکرمﷺکے زمانے میں مسجد نبوی میں مسلمانوں کے تمام امورکے حوالے سے مشاورت ہوتی تھی چاہے وہ دینی معاملات ہو یادنیاوی ۔ معاشرے میں مسجدکے اس کردارکوایک مرتبہ پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں جس میں مسجد کومسلمانوں کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی ۔ راشن کی تقسیم کی ذمہ داری مساجدکودیکر ایک مرتبہ پھرمساجد کو مرکزی حیثیت دینے کی طرف پیش رفت کی جاسکتی ہے ۔

مساجد میں راشن رکھ کربہت ہی اچھے اور منصفانہ طریقے سے اس کی تقسیم یاضرورت مندوں تک پہنچانے کویقینی بنایاجاسکتا ہے ۔ ورنہ ٹائیگرز فورس والے جب کسی علاقے میں راشن کا ٹرک لیکر جائیں گے تو لوگ راشن پر ٹھوٹ پڑیں گے ، اس دوران چھینناچھپٹی بھی ہوں گی نتیجہ یہ ہوگا کہ جوزورآورہوگا وہ تواپنے حصے سے کئی گناہ زیادہ لے لے گا اورجوایسا نہیں وہ محروم رہ جائے گا ۔ مساجدکے ذریعے راشن کی تقسیم میں ایسا نہیں ہوگا ۔ مساجد کی انتظامیہ یاکمیٹی کے لوگ اپنے علاقے کے لوگوں سے کافی حد تک واقف ہوتے ہیں ،ان کوپتا ہوتا ہے کہ ضرورمندکون ہے، یہاں سے راشن تقسیم ہوگاتواس بات کا امکان بہت کم ہوگاکہ کوئی دوسرے کاحق مار کرزیادہ لے لے گا اوردوسرامحروم رہ جائےگا ۔ حکومت کویہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جولائن میں کھڑے ہوکرراشن نہیں لے سکتے ،مثلاً کوئی باپردہ بیوہ ،کوئی ضعیف وبیمار شخص یا کوئی ضرورت مندسفید پوش ۔ مسجد کے ذریعے راشن تقسیم ہوگاتو مذکورہ لوگوں تک بھی ان کا حصہ پہنچے گا کیوں کہ مسجدکے لوگوں کوان کے بارے میں معلوم ہوگا اوراگرنہیں ہوگاتومذکورہ لوگوں کیلئے یہ زیادہ مشکل نہیں ہوگاکہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنی حالت کی خبر ان تک پہنچائیں ۔ ایسی صورت میں مسجدوالے ان تک ان کاحصہ پہنچادینگے ۔ حکومت کویہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ کسی ضرورت مندکو صرف ایک دفعہ راشن پہنچانے سے شاید کام نہ چلے، اگرلاک

ڈاءون کا سلسلہ کئی ماہ تک طویل ہوگیا توپھر باربار یعنی ہر دس یا پندرہ دن بعدحکومت کوضرورمندوں تک راشن پہنچاناہوگا،ایسی صورت میں مسجدکے ذریعے ہی یہ کام بہتر طورپر کیاجاسکتا ہے ۔ مساجدکوپاپند کیاجاسکتاہے کہ وہ صرف اپنے محلے یا علاقے کے ضرورت مندوں کو راشن پہنچائیں یاتقسیم کریں اس کابڑ افائدہ یہ ہوگا کہ حکومت کو معلوم ہوجائے گاکہ کس علاقے یا کس مسجد کی حدود میں کتنے ضرورت مند ہیں اوروہاں کتناراشن بھیجنا چاہئے ۔ ورنہ ہوگا یہ کہ ایک شخص صدرسے بھی جاکر راشن لے گا، ڈیفنس میں بھی لے گا، کورنگی سے بھی لے گا اور لانڈھی یاکسی اورعلاقے سے بھی حاصل کریگا اور گھر میں ڈھیر لگادیگا جبکہ دوسری جانب ضرورت مند دانے دانے کو ترسیں گے ۔ مساجدکے ذریعے ضرورت مندوں کا مصدقہ ڈیٹابھی حاصل کیاجاسکتا ہے جوبعد میں بھی حکومت کے کام آسکتا ہے ۔

حکومت اگرمساجدکو یہ کردار دے تواس کے نتیجے میں صاحب ثروت لوگ بھی مساجدکوبیس بناکروہاں سے ضرورت مندوں تک اپنی امدا د پہنچاسکتے ہیں ۔ ہر علاقے میں مخیر حضرات موجود ہوتے ہیں ، مسجدکومرکزبنانے سے ان مخیرحضرات کا آپس میں رابطہ بھی ہوگا اور اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ ضرورت مندوں تک امداد پہنچ سکے گی ورنہ عام طورپر یہ ہوتاہے کہ بعض ضرورت مندوں کو توکئی کئی افراد امداددے دیتے ہیں اوربعض تک کسی ایک کی بھی رسائی نہیں ہوتی ۔ پوش علاقوں کے مخیرحضرات کو بھی مسجدکے سسٹم سے فائدہ ہوگا ۔ کئی لوگ کسی تنظیم یاخیراتی ادارے کے بجائے براہ راست غریبوں تک اپنی امداد پہنچاناچاہتے ہیں ، اس کیلئے یہ لوگ کچی آبادیوں یا غریب علاقوں میں جاتے ہیں اور وہاں امداد تقسیم کرتے ہیں لیکن یہ کام آسان نہیں ہوتا کیوں کہ یہ لوگ ان علاقوں سے واقف نہیں ہوتے، جب مسجدکے ذریعے تقسیم کاسسٹم موجود ہوگا توا ن لوگوں کاکام بہت آسان ہوجائے گا، یہ کسی بھی غریب علاقے کی مسجد میں اپنی امداد کے ساتھ پہنچیں گے اوروہاں کی انتظامیہ کی مدد سے مستحقین میں امداد تقسیم کردینگے ۔ اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ اگر کسی کو حکومتی امداد نہ ملی ہوگی تومسجد کی انتظامیہ کے ذریعے یہ امداد ان تک پہنچ جائے گی ۔ گویا اس طرح حکومتی اورپرائیویٹ امداد میں ایک کوآرڈینیشن بھی قائم ہوجائےگا جس سے زیادہ سے زیادہ زیادہ لوگ مستفید ہوں گے ۔ مساجدکی صورت میں ایک بنابنایازبردست سسٹم موجود ہے جس سے موجودہ صورت حال میں بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، لیکن اس کیلئے وژن اور عزم درکار ہے ۔ جہاں تک ٹائیگر فورس کا تعلق ہے تو حکومت یہ بھی بنا لے لیکن ہمارا مشورہ ہے کہ اس کو صرف یہ ذمہ داری دی جائے کہ یہ مقامی انتظامیہ کے ساتھ ملکر مساجدتک راشن پہنچا نے کا کام کرے، تقسیم کا کام مساجدکی انتظامیہ سے لیاجائے ۔

ڈیفکلیریا کی منیجنگ کمیٹی سے التماس
ڈیفکلیریاکی جانب سے ضرورت مندوں کی امداد کاسلسلہ جاری ہے لیکن دیکھا گیاہے کہ اس نیک کام میں بھی لوگ گروپ بندی کا شکار ہیں ۔ ایک طرف ڈیفکلیریا کے دفترسے امدادی سامان دیاجارہاہے اور دوسری جانب کلفٹن والوں نے اپنے طورپر امداد دینے کاسلسلہ شروع کیا ہے جو کہ کسی بھی طورمناسب نہیں ، کلفٹن والے بھی ڈیفکلیریا کاحصہ ہیں ، تمام امدادی سامان ڈیفکلیریا کے پلیٹ فارم سے دینا چاہئے تاکہ ایسوسی ایشن میں اختلافات اور تقسیم کا تاثر پید ا نہ ہو ۔ ہماری سب سے گزارش ہے کہ وہ اس نازک اورمشکل وقت میں گروپ بندی اور تنظیمی اختلافات سے بالاترہوکر اتحاد ویکجہتی کا ثبوت دیں اورملکر ایک ہی پلیٹ فارم سے اس کارخیرکاسلسلہ جار ی رکھیں ۔ شکریہ