Clifton Times - Your Weekly Real Estate Guide

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا


The purpose of life is to serve others
  • COLUMN    |    08 July 2020

صرف اپنے لئے جینا کوئی کمال نہیں ، کمال یہ ہے کہ انسان اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی سوچے، ان کا دکھ درد اپنے دل میں محسوس کرے اور اپنی بساط کے مطابق یا بعض مواقعوں پراپنی بساط سے بھی بڑھ کر دوسروں کی مدد کرے ۔ دنیا میں جتنے بھی عظیم انسان گزرے ہیں ان میں یہ قدر مشترک تھی کہ وہ صرف اپنے لئے نہیں جئے بلکہ خود سے زیادہ دوسروں کی فکر کی ، دوسروں کی بہتری اور بھلائی کیلئے جدوجہد کی، تکالیف اور مشکلات برداشت کیں اور قربانیاں دیں ۔ اسی بنیا دپر وہ عظیم کہلائے اورتاریخ کاحصہ بن گئے ۔ دنیا میں کروڑوں ایسے لوگ بھی گزرے ہوں گے جنہوں نے بہت مال ودولت کمائی ہوگی، اچھی اورخوشحال زندگی بسر کی ہوگی لیکن آج ان کانام ونشان باقی نہیں ،وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ صرف اپنے لئے جئے تھے ، اس لئے مرنے کے بعد دنیا نے ان کوفراموش کرنے میں دیر نہیں کی ۔ یہ فارمولا آج بھی روبہ عمل ہے اوررہتی دنیا تک روبہ عمل رہے گا ۔ اس طولانی تمہید کامقصد آپ کوموجودہ مشکل اور بحرانی صورتحال میں دوسروں کی مدد کی طرف راغب کرنا ہے ۔ گو یہ مشکل صورتحال سب کیلئے یکساں ہے اور سب کو اپنے معاشی مستقبل کی فکر لاحق ہے لیکن انسانیت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی فکر بھی کریں ،خاص کر ان لوگوں کی جو معاشی طورپر کمزور ہیں اور زندگی کی دوڑ میں ان کے گرنے کاخدشہ ہے، ہ میں چاہئے کہ جہاں تک ہوسکے ان کو گرنے نہ دیا جائے اور جو بدقسمتی سے گر چکے ہیں دوبارہ کھڑا ہونے میں ان کی مدد کریں ۔

آپ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں ریئل اسٹیٹ انڈسٹری کبھی بھی ایسے برے حالات سے دوچارنہیں ہوئی تھی جو حالات آج کل ہیں ، اس وقت کاروبار بالکل نہیں ہے ،ریئل اسٹیٹ ایجنسیاں بند ہیں اور لوگ گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ان پر دفاتر کے کرایے چڑھ رہے ہیں ۔ اگر لاک ڈاءون اورکاروبار کی بندش کایہ سلسلہ مزید چند ماہ جاری رہا توبہت ساری اسٹیٹ ایجنسیاں ختم اور بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوجائیں گے ۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے صاف لگتا ہے کہ آنے والا وقت ریئل اسٹیٹ بزنس کیلئے اچھا نہیں ہے اورکم از کم آئندہ دو سال تک تو پراپرٹی کاکاروبار اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا ۔ چونکہ معیشت کی مجموعی حالت بھی بہت خراب ہے اس لئے نہ صرف ریئل اسٹیٹ بزنس میں تیزی کی کوئی امید نہیں ہے بلکہ خدشہ ہے کہ جینوئن کام بھی بہت زیادہ نہیں ہوگا ، اورویسے بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک بھر میں پھیلی ہوئیں اسٹیٹ ایجنسیاں صرف جینوئن کام کی بنیاد پر سروائیو نہیں کرسکتیں ۔

ابھی توبحران کی ابتداء ہے، اس میں شدت آئے گی،اس وقت توصورتحال کچھ اچھی ہے کیوں کہ لوگ اس پوزیشن میں ہیں کہ ضرورت مندوں کی مدد کرسکیں ، رمضان کی وجہ سے لوگوں نے زکوٰۃنکالی ہے ،وہ تقسیم کررہے ہیں ، رمضان میں ہر مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق دوسروں کی مدد کرتا ہے، مختلف فلاحی اداروں کی جانب سے لوگوں کوراشن دیاجارہاہے اورحکومت بھی مستحق لوگوں کی امدادکررہی ہے ۔ لیکن امداد کا یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک اسی طرح نہیں چل سکے گا ۔ اگر بحران طویل ہوگیا توپھر بہت سارے صاحب ثروت لوگ بھی اس قابل نہیں ہوں گے کہ لوگوں کی مدد کرسکیں ۔ فلاحی تنظیموں کوملنے والے ڈونیشن میں بھی کمی آجائے گی اوران کیلئے بھی امدادی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن نہیں ہوگا ۔ ان حالات میں یہ سمجھنا کہ تعمیراتی پیکیج کی وجہ سے عیدکے بعد یا کوروناکے خاتمے کے بعد ریئل اسٹیٹ بزنس میں بہت تیزی آجائے گی اور ملکی معیشت میں کوئی بڑا انقلاب آجائے گا حقیقت کے برعکس ہے ۔ شائد کئی لوگوں کواس نقطہ نظر سے اختلاف ہو لیکن اگر وہ ٹھنڈے دل سے صورتحال پرغور کریں توان کو بھی صورتحال کی سنگینی کا ادراک ہوجائے گا ۔

اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ ہ میں کیا کرنا چاہئے;238; یہ حقیقت ہے کہ ہم پورے ملک کے حالات درست کرسکتے ہیں اور نہ ہی مشکلات سے دوچار تما م لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں ، لیکن کم ازکم ا پنی انڈسٹری اور خاص کرجن علاقوں میں ہم برسوں سے کام کررہے ہیں وہاں کے ریئل اسٹیٹ بزنس اوراس سے وابستہ لوگوں کی مشکلات کم کرنے کیلئے ضرور کوئی کردار اداکرسکتے ہیں ۔ ہم اپنے تجربے ،اپنے علم اور اپنے وسائل کے ذریعے کوئی ایسا راستہ تلاش کرسکتے ہیں اورایسے عملی اقدامات کرسکتے ہیں جن سے ریئل اسٹیٹ بزنس اوراس سے منسلک افراد کوسہارا مل سکے ۔ اس کاسب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ریئل اسٹیٹ انڈسٹری کے لوگ صورتحال پرغور کیلئے مل کر بیٹھیں ،موجودہ اورآنے والے حالات کا اچھی طرح تجزیہ کریں اوراجتماعی دانش کو بروئے کار لاکر ایک ایسا مشترکہ لاءحہ عمل ترتیب دیں جو شارٹ ٹرم اورلانگ ٹرم پالیسیوں پر مبنی ہو ۔ ریئل اسٹیٹ کی نمایاں اور صاحب ثروت شخصیات، مختلف تنظی میں خاص کر ڈیفکلیریا اور اس میں موجودمختلف گروپس اگر اپنے اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پرآجائیں اور اس بات پر فوکس کریں کہ ہمارے ریئل اسٹیٹ کے جو دوست اوربھائی مشکلات کا شکارہیں یا آنے والے وقت میں شکار ہوسکتے ہیں ان کو مل جل کراس بحران سے کیسے نکالا جائیں توضرور کوئی راستہ نکالاجاسکتا ہے ۔ پاکستان کی سب سے بڑی ریئل اسٹیٹ ایسوسی ایشن ہونے کی وجہ سے ڈیفکلیریا پر اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری عائدہوتی ہے ۔ ڈیفکلیریا کوچاہئے کہ وہ موجودہ بحران سے ملکر نمٹنے کیلئے واضح اورعملی لاءحہ عمل ترتیب دے ۔ یہ ایسا موثر لاءحہ عمل ہو کہ ملک کی دوسری ریئل اسٹیٹ ایسوسی ایشنز بھی اس کی تقلید کریں ۔ اس وقت ڈیفکلیریا کے پلیٹ فارم سے لوگوں کی مدد ہورہی ہے لیکن ضرور ت اس بات کی ہے کہ لوگوں کومچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنے میں ان کی مدد کی جائے ۔ ڈیفکلیریا کے پاس تمام اسٹیٹ ایجنٹس کاڈیٹا بیس ہونا چاہئے ، جس میں ہر اسٹیٹ ایجنٹ کی مکمل معلومات درج ہوں ۔ اس کی مدد سے بہت سے کام آسانی سے ہوجاتے ہیں ۔

کالم کاخلاصہ یہ ہے کہ آنے والا وقت ریئل اسٹیٹ بزنس کیلئے بہت سخت ہوگا اور بڑی تعداد میں ریئل اسٹیٹ ایجنٹس ایسے ہیں جن کیلئے سروائیو کرنا بہت مشکل ہوگا ، البتہ سب لوگ ملکراگر کوشش کریں تومشکل حالات سے نمٹنے میں ان کی مددکی جاسکتی ہے اوران کے کاروبار کوبچایا جاسکتا ہے ۔ مشکل حالات ہی میں انسان کے کردار کا پتا چلتاہے، موجودہ حالات ہم سب کیلئے ایک امتحان ہے، اس وقت اگرہم نے صرف اپنی فکر کی اوردوسروں کا نہیں سوچا تو ہم اس امتحان میں فیل ہوجائیں گے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہ میں جو صلاحیتیں دی ہیں اورجن وسائل سے نوازا ہے ا س سے دوسروں کوبھی فائدہ پہنچائیں ۔ انسان کاکام تومحض نیت نیتی کے ساتھ کوشش اورسعی کرنا ہے، لوگوں کی مشکلات ، دکھوں اورتکلیفوں کا مداوا کرنے والی حقیقی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے ۔

اس بحرانی صورتحال میں ہم مشکلات کاشکاراپنے ریئل اسٹیٹ کے دوستوں کیلئے کیا کرسکتے ہیں اس سلسلے میں آپ تمام دوستوں کی تجاویز کا انتظاررہے گا ۔ کلفٹن ٹائمز کے آئندہ شمارے میں ہم اپنی تجاویز اور آپ سے ملنے والی تجاویز کی روشنی میں یہ بتائیں گے کہ ہم رئیل اسٹیٹ بزنس اورمشکلات سے دوچار ریئلٹرز کی بہتری کیلئے کیاکرسکتے ہیں ۔